Ganjay Nihari Walay.

دلی میں اب تو تقریبا ہر بڑے  محلے میں ایک نہاری والا موجود ہےلیکن ابسے پچیس سال پہلے صرف چار نہاری والے تھے انہوں نے شہر کے چار کھو نٹے داب رکھے تھے۔ گنجے کی دکان چاندنی چوک مین کڑے کے پاس تھی اور شہر مین اس کی نہاری سب  مین مشہور ہوتی تھی۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دکانداری شروع ہونے سے پہلے ادھر دیگ کھلی اور ادھر انہون نے اللہ کے نام کا حصہ نکالا۔ اگر کوئ محتاج موجود ہوا تو پہلے اسے کھلایا ورنہ نکال کر الگ رکھ دیا۔ پھر دیگ مین سے بھیجے نلیاں نکال کر طباق میں رکھیں ۔ تار اور رونق کو ایک الگ بادئے میں نکال لیا اور اس کے بعد دکانداری شروع ہوئ۔ دکان میں بیسیوں پتلیاں، دیگچے اور برتن رکھے ہیں۔ کسی میں دو  روپے کسی مییں روپیہ ،کسی مین بارہ آنے،کسی مین آٹھ انے پڑے ہیں۔
سب سے پہلے انہی برتنوں کی طرف استاد کی توجہ ہوتی ہے۔گاہک بھی جانتے ہیں جس کے برتن پہلے اگے اسے پہلے ملے گا۔ کسی نے جلدی مچائتو استاد نے بڑی انکساری سے کہا"حضور،ابھی دیتا ہوں جو پہلے آیا ہے اگر اسے پہلے نہ دون تو شکایت ہوگی۔ برتن پورے ہوے گاہکون کا بھگتان شروع ہوا۔
تین گھنٹے میں دو ڈھائ سو گاہکوں کو نہاری دی اور دیگ سخی کے دل کی طرح صاف ہوگئ۔
اب جو کوئ آتا رہے تو بڑی سماجت سے کہتے ہیں،میاں معافی چاہتا ہوں۔ میاں اب کل دونگا،انشا اللہ خیر رکھے کل کھایے گا۔

سبحان اللہ کیا اخلاق تھا اور کیسی وضعداری تھی۔آگ اور مرچوں کا کام اور اتنے ٹھنڈے اور میٹھے۔ دوسروں کو دیکھ لیجیے۔گالی گلوچ،دھکا مکی اور لپا ڈگی کی نوبت رہتی ہے۔

"شاہد احمد دہلوی کے شاہکار خاکے""
مرتب 
حکیم اعجاز چانڈیو۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Mirza Asadullah khan Ghalib

Quaid-a-Azam